ایشیائی طبع پیداوار
From Wikipedia, the free encyclopedia
ایشیائی طبع پیداوار کا نظریہ کارل مارکس نے 1850کی دہائی میں پیش کیا تھا جس کے مطابق علاقوں اس مخصوص طبع پیداوار پر مبنی معاشرے کی بنیادی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان معاشرے میں ارتقا مغرب سے یکسر مختلف ہے[1]۔ مارکس نے 1853ء تا 1858ء نیویارک ٹریبون میں ہندوستان پر اپنے مشہور مضامین میں اس طبع پیداوار کی وضاحت کی۔ نظریے کے مرکزی نقطہ کے مطابق ایشیائی خطوں کو استبدادی حکمران طبقہ کے ساتھ یہ معاشرے برسو ں تک ٹھہراؤ کا شکار رہے۔
مارکس کی تحریروں کی روشنی میں مختصر خاکہ یوں تیار کیا جا سکتا ہے:[2]
1۔ زراعت اور دستکاری کے باہمی ربط کی بنیاد پر قدرتی معیشت، جس میں محنت کی واضح تقسیم موجود تھی۔
2۔ زمین کی اشتراکی ملکیت پر مبنی معاشرہ۔
3۔ زراعت کے لیے عوامی تعمیرات، یعنی آبپاشی کے نظام کی لازمیت کے باعث مشرقی استبدادکے طرز کی حکومت
4۔ ریاست کا گاؤں سے لگان کی شکل میں مشترکہ قدر زائد نچوڑنا [2]