تابکاری کی اقسام
الفا بیٹا گاما ریز / From Wikipedia, the free encyclopedia
دنیا یا کائنات میں موجود سارے ایٹمی مرکزے (atomic nucleus) پائیدار نہیں ہوتے کیونکہ ان میں کچھ فالتو توانائی موجود ہوتی ہے۔ نا پائیدار ایٹمی مرکزے اپنی کچھ توانائی خارج کر کے نسبتاً زیادہ پائیدار بن جاتے ہیں۔ یہ عمل خود بخود انجام پاتا ہے اور تابکاری (radioactivity) کہلاتا ہے۔ خارج ہونے والی توانائی ایٹمی ذرات کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے اور گاما ریز کی شکل میں بھی۔ تابکاری کو Radioactive decay یا nuclear decay بھی کہتے ہیں کیونکہ اکثر تابکاری کے نتیجے میں ایک ایٹمی مرکزہ کسی دوسرے ایٹمی مرکزے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کسی ایک عنصر کا کسی دوسرے عنصر میں تبدیل ہونا nuclear transmutation کہلاتا ہے۔
زمین پر قدرتی طور پر 92 عناصر پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک سے لے کر 82 نمبر تک کے عناصر غیر تابکار ہیں سوائے نمبر 43 (ٹیکنیشیئم) اور نمبر 61 (پرومیتھیئم) کے۔ سارے ہم جا سمیت زمین پر کل 254 ایٹمی مرکزے پائیدار (یعنی غیر تابکار) کہلاتے ہیں۔ اگر غیر تابکار عناصر کو نیوکلیئر ری ایکٹر یا پارٹیکل ایکسلیریٹر میں رکھا جائے تو ان میں بھی مصنوعی تابکاری آ جاتی ہے۔ اس طرح ہر غیر تابکار عنصر کے کئی تابکار ہم جا (isotope) بنائے جا سکتے ہیں۔
ایٹمی مرکزوں کی لگ بھگ 650 اقسام ایسی ہیں جو بے حد تابکار ہیں اور ان کی ہاف لائف (half life) ایک گھنٹے سے زیادہ ہے۔ 2400 سے زیادہ ایٹمی مرکزے ایسے ہیں جن کی ہاف لائف ایک گھنٹے سے بھی کم ہوتی ہے۔ زمین پر موجود چند ایسے عناصر بھی ہیں جو کائنات سے ہر وقت آنے والی کوسمک ریز کی وجہ سے تابکار بن جاتے ہیں جیسے کاربن14۔
جیسے جیسے ایٹمی مرکزے بھاری ہوتے جاتے ہیں ان کے مستحکم یا پائیدار رہنے کے امکانات کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سیسہ جس کا ایٹمی نمبر 82 ہوتا ہے وہ آخری پائیدار عنصر ہے۔ اس کے بعد 83 نمبر پر بسمتھ ہے جو بہت ہی کم تابکار ہے۔ اس سے بھی زیادہ بھاری مرکزے لازماً تابکار ہوتے ہیں۔
قلعئ یعنی ٹِن کے دس پاِئیدار ہم جا ہوتے ہیں جبکہ 26 عناصر ایسے ہیں جن کا صرف ایک ہی پائیدار ہم جا ہوتا ہے جیسے سونا۔ عام طور پر جن ایٹمی مرکزوں میں پروٹون جفت تعداد میں ہوتے ہیں وہ زیادہ پائیدار ہوتے ہیں اور ان کے پائیدار ہم جا کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے۔ طاق تعداد میں پروٹون رکھنے والے ایٹمی مرکزوں کے بہت کم پائیدار ہم جا ہوتے ہیں۔
تابکاری (ریڈیو ایکٹیویٹی) کا اُس ریڈیو سے کوئی تعلق نہیں ہے جو گانے اور خبریں سننے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔