اسلامی فتح مصر
مصر پر مسلمانوں کی فتح / From Wikipedia, the free encyclopedia
عمرو بن عاص 4000 گھڑ سواروں کے ہمراہ مصر فتح کر نے کے لیے روانہ ہوئے۔ مصر پران دنوں رومی شہنشاہ ہرکولیس کی حکومت تھی۔ رومی افواج نے 640ء میں، فيوم اور عین شمس میں شکست کے بعد وہاں کا کنٹرول کھودیا۔ عمرو نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ شکست خوردہ رومی افواج بےبیلون کے قلعے میں جمع ہوگئیں۔ عمرو بن عاص ؓ نے انھیں شکست دے کر قلعے سے باہر نکا لا اور وہاں بھی شکست سے دوچار کیا۔
مسلمانوں کی فتح مصر | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ اسلامی فتوحات اور عرب بازنطینی جنگیں | |||||||||
| |||||||||
مُحارِب | |||||||||
بازنطینی سلطنت | خلافت راشدہ | ||||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||||
بادشاہ ہرقل قسطن ثانی |
عمر بن خطاب |
کوروش نے جو مصر کا گورنر تھا۔ اس نازک صورت حال کو دیکھتے ہوئے امن مذاکرات شروع کیے اور اپنے اس فیصلے کی ہرکولیس سے تائید چاہی۔ شہنشاہ نے امن معاہدے کو مسترد کر کے کوروش کو باغی قرار دے دیا۔ فروری 641ء میں شہنشاہ کا انتقال ہو گیا اور اسی سال بےبیلون کے ہتھیار ڈالنے کے بعد کوروش امن قائم کرنے کے قابل ہوا۔ مصر ماسوائے اسکندریا مسلمانوں کے زیر قبضہ آچکا تھا۔ نئے شہنشاہ قسطنطین سوم نے دفاع کے لیے ایک بڑی فوج روانہ کی۔ عمرو بن العاص نے اسکندریا کی طرف قدم بڑھائے اور اپنی مہارت و شجاعت کے باعث ایک بار پھر رومی افواج کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ اسکندریا بھی اب مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا،خلیفہ عثمان نے عمرو بن عاص کو مصر کا گورنر مقرر کر دیا۔