عمر بن خطاب
اسلام کے دوسرے خلیفہ (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) / From Wikipedia, the free encyclopedia
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔[6] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔[7] عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں،جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
مکمل
عُمر فاروق بن الخطّاب | |
---|---|
اسلامی خطاطی میں عمر بن خطاب کا نام اور لقب الفاروق اور آخر میں 'رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ' | |
ولادت | 583ء سنہ 40 ق ھ مكہ، تہامہ، شبہ جزيرہ عرب |
وفات | یکم محرم الحرام [1] [2]
24ھ[3][4] 26 ذوالحجه کو حملہ ہوا حملے کے بعد 29 ذوالحجۃ تک ذندہ رہے اور 1 محرم الحرام کو دفنایا گیا۔
[5] بمطابق 6 نومبر 644ء |
محترم در | اسلام: اہل سنت و جماعت، اباضیہ، الدروز، زیدیہ شيعہ |
مزار | مسجد نبوی، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ابوبكر صديق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے برابر میں، مدينہ منورہ |
نسب | والد: الخطّاب بن نفیل بن عبد العزی والدہ: حنتمہ بنت ہشام بن المغيرہ أشقاؤہ: زيد بن الخطاب، فاطمہ بنت الخطاب ازواج: قريبہ بنت ابی اميہ، ام كلثوم مليكہ بنت جرول، ام کلثوم بنت ابوبکر، زینب بنت مظعون، جميلہ بنت ثابت، عاتکہ بنت زید، ام کلثوم بنت علی، ام حکیم (1) ذريت: عبيد اللہ، زيد الاكبر، زيد الاصغر، عبد اللہ، حفصہ، عبد الرحمن الاكبر، ابو شحمہ عبد الرحمن الاوسط، عبد الرحمن الاصغر، عاصم، عياض، فاطمہ، رقيہ۔ |
عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں، ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (22,51,030) مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔[8] عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔[9] صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علمائے اسلام نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود قرار دیا ہے۔[10]