کشمیر
سابقہ شاہی ریاست، موجودہ پاک و ہند و چین کے درمیان ایک متنازعہ خطہ / From Wikipedia, the free encyclopedia
جموں کشمیر برصغیر پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے۔ تاریخی طور پر جموں کشمیر و اقصائے تبت ہے جو ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے۔
جموں کشمیر کافی بڑے علاقے کو سمجھا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ بھی شامل ہے۔ پاکستانی مقبوضہ جموں و کشمیر اور مقبوضہ گلگت بلتستان کے علاقے شامل ہیں۔ 1846ء سے ان علاقوں میں کوئی نظام نہیں تھا اکثر مقامی بد معاشوں اور غیر ملکیوں کی حکمرانی رہی۔۔ وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔
اس وقت خطہ تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور پاکستانی جموں وکشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ) اور چین شمال مشرقی علاقوں (اقصائے چین اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ بھارت سیاچن گلیشیئر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر جبکہ پاکستان نسبتا کم اونچے پہاڑوں پر موجود ہے۔
کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازعے کی اہم ترین وجہ ہے اور اس تنازعے کا واحد حل رائے شماری ہے پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں جو جموں کشمیر کے آزادی اور خود مختاری کو بامسئلہ کشمیر دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں جن میں 1947ء کی جنگ، 1965ء کی جنگ اور 1999ء کی کارگل جنگ شامل ہیں 1971ء کی جنگ بنگال کی وجہ سے ہوئی تھی۔
سولہ مارچ 1846ء کو پنجابی سکھوں سے جب گلاب سنگھ نے غداری کی اور انھیں شکست کا سامنہ کرنا پڑا تو انھوں نے تاوان جنگ کے طور پر اپنے علاقے کشمیر وادی گلگت وغیرہ سمیت کئی علاقے کو انگریز کو دینے پڑے۔ ایسے میں جموں ریاست سے لاہور تحت کا غدار مہاراجا گلاب سنگھ جس کا انگریز سے گٹھ جوڑ تھا کشمیر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا انگریز نے گلاب سنگھ کی وفاداری کے بدلے 75لاکھ نانک شاھی میں کشمیریوں کو اس کے ہاتھ بیچ دیا اور معائدہ امرتسر کے تحت جدید ریاست جموں کشمیر کی بنیاد رکھی اس وقت ریاست پونچھ بھی موجود تھی جس پر بعد میں جموں کے مہاراجا نے قبضہ کیا تھا اسی طرح گلگت بلتستان میں میں بھی دو ریاستیں موجود تھیں جن پر جموں کے مہاراجا نے قبضہ کر رکھا تھا۔
1929ء میں شیخ عبد اللہ نے ریڈنگ روم تنظیم اور اے آر ساغر نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن بنائی شیخ عبد اللہ نے ایک تحریک شروع کی جس کا نعرہ تھا معائدہ امرتسر توڑ دو کشمیر وادی چھوڑ دو شیخ کشمیر وادی کو الگ عوامی ریاست بنانا چاہتا تھا یاد رہے کشمیر صرف موجودہ کشمیر صوبے کا نام ہے
1931ء میں پہلی مسجد ریاسی میں شہید ہوئی ہے۔ کوٹلی میں نماز جمعہ پر پہلی بار پابندی لگائی گئی پھر عبدالقدیر نامی مسلمان نے بے مثال احتجاجی جلسے کیے۔
1933ء میں سری نگر پتھر مسجد میں جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ شیخ عبد اللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس اس کے جنرل سیکرٹری بنے۔ 1947 کے بعد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی اکثریت جو مسلم تھی اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہا لیکن مہاراجا ہری سنگھ کو یہ منظور نہ تھا جس پر مہاراجا نے پاکستان اور بھارت کو خط لکھے اور الگ ریاست قائم کرنا چاہی جبکہ بھارت کی طرف سے مہاراجا ہری سنگھ پر شدید دباو تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کرے اس لیے بھارت نے اس خود مختار ریاست کی مخالفت کرتے ہوئے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا جبکہ پاکستان نے باوجود کشمیری اکثریتی مسلمان آبادی کے خود مختار ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے مہاراجا ہری سنگھ کو خط کا خواب دیا اور مہارجہ اور پاکستان کے درمیان معاہدہ بھی ہوا لیکن اس کے بعد مہاراجا ہری سنگھ کو بھارت کی طرف سے شدید دباو تھا جس کی وجہ سے وہ مجبورا بھارت کے ساتھ الحاق کرنا پڑا اور 22 اکتوبر سے کئی روز پہلے آر ایس ایس کے غنڈے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے اور کئی شواہد پائے گئے جو ہری سنگھ کو بھارت سے الحاق کرنے پر مجبور کر چکے تھے اسی اثناء میں گلگت بلتستان کی غیور عوام نے مہاراجا کی فوج کے خلاف اعلان جنگ کیا اور گلگت بلتستان سے مہاراجا فوج کو بھگا دیا اسی طرح ریاست پونچھ کی عوام نے بھی بغاوت کر ڈالی اور قبائلیوں سے مدد بھی مانگی جو مظفرآباد کے راستے داخل ہوئے اس طرح پونچھیوں نے قبائلیوں کی مدد سے موجودہ آزادکشمیر سے ڈوگروہ فوج کو بھگا دیا
اس وقت بھارت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر قابض ہے جبکہ پاکستان 85،846 اور چین 37،555 مربع کلومیٹر کا رقبہ موجود ہے
آزاد کشمیر کا 13،350 مربع کلومیٹر (5134 مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے جہاں کی عوام محاصرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور کسی قسم کی سہولیات زندگی میسر نہیں صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع نا پید ہیں لوگ بیرون ملک جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں جس طرح مقبوضہ کشمیر میں برائے نام اسمبلی موجود ہے اسی طرح ایک برائے نام اسمبلی آزادکشمیر مین بھی موجود ہے۔