فرانسیسی استعماری سلطنت
From Wikipedia, the free encyclopedia
فرانسیسی نو آبادیاتی سلطنت یا فرانسیسی استعماری داوری (انگریزی: French Colonial Empire) سترہویں صدی کے اوائل سے لے کر 1960ء کی دہائی تک یورپ سے باہر اُن خطوں مشتمل سلطنت تھی جو فرانس کے زیر قبضہ تھے۔ 19 ویں اور 20 ویں صدی میں فرانس کی نو آبادیاتی سلطنت سلطنت برطانیہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی استعماری قوت تھی۔ 1920ء اور 1930ء کی دہائی میں اپنے عروج کے زمانے میں فرانس کے مقبوضات کا کل رقبہ 13،500،000 مربع کلومیٹر (4،767،000 مربع میل) تھا۔ ملک فرانس کا رقبہ شامل کیا جائے تو یہ رقبہ 13،500،000 مربع کلومیٹر (4،980،000 مربع میل) بن جاتا ہے جو زمین کے کل ارضی رقبے کا 10.7 فیصد بنتا ہے۔
عہد دریافت (Age of Discovery) میں ہسپانیہ اور پرتگال کی کامیابیوں کے بعد برطانیہ کے خلاف برتری کی حریفانہ کشاکش میں فرانس نے شمالی امریکا، غرب الہند اور ہندوستان میں نو آبادیاں قائم کیں۔ 18 ویں صدی کے اواخر اور 19 ویں صدی کے اوائل میں برطانیہ کے خلاف جنگوں کے سلسلے میں فرانس کو شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان براعظموں میں اس کے استعماری عزائم کو زبردست دھچکا پہنچا۔ 19 ویں صدی میں فرانس نے افریقا اور جنوب مشرقی ایشیا میں نئے مقبوضات اپنی قلمرو میں شامل کیے۔ جنگ عظیم دوم میں نازی جرمنی کی جانب سے فرانس پر جارحیت اور قبضے کے باوجود ان نو آبادیوں میں سے چند پر فرانس کا قبضہ برقرار رہا۔
جنگ کے بعد استعماریت مخالف تحریکوں کا آغاز ہوا جنھوں نے فرانسیسی اختیار کو للکارنا شروع کر دیا۔ 1950ء کی دہائی میں اور 1960ء کے اوائل میں فرانس نے نو آبادیوں پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ویت نام اور الجزائر میں ناکام جنگیں لڑیں۔ 1960ء کی دہائی کے خاتمے تک فرانس کی بیشتر نو آبادیات آزادی حاصل کر چکی تھیں البتہ چند جزائر اور مجمع الجزائر سمندر پار خطوں کی حیثیت سے فرانس میں شامل رہے۔ ان کا رقبہ 123،150 مربع کلومیٹر (47،548 مربع میل)بنتا ہے جو 1939ء سے قبل کی فرانسیسی استعماری سلطنت کا محض 1 فیصد بنتا ہے۔ یہ تمام علاقے قومی سطح پر مکمل سیاسی نمائندگی اور مختلف نوعیت کی قانونی خود مختاری کے بھی حامل ہیں۔
اہلِ_افریقہ_یورپین_کی_آمد سے قبل پس ماندہ, اور غیرترقی یافتہ نہ تھے, جیسا کہ یورپ کی جانب سے بتایا جاتا ہے, بلکہ وہاں بڑی باشعور اقوام بستی تھیں جنھوں نے تہذیبیں اور مملکتیں قائم کیں, لیکن یورپی استعمار بڑی مہارت سے ان کی پردہ پوشی میں کامیاب ٹھہرا, بلکہ ہمیشہ انھوں نے اسے پس ماندہ براعظم کے طور پر یاد کیا اور اپنی فلموں کتابوں کے ذریعے اذہان میں یہ بات راسخ کر دی کہ افریقہ غیر مہذب تاریکی میں ڈوبا براعظم تھا, جہاں وحشی آدمخوروں کی ٹولیاں بستی تھیں جو صحراؤں اور جنگلوں میں گھومتی پھرتیں ہیں۔ حالانکہ کہ یورپی قابضین نے جب افریقہ پر اپنے قدم جمانے شروع کیے تو نہ وہ تاریک براعظم تھا اور نہ اس کا باشندے اس قدر پسماندہ کہ استعماری قوتوں کو مٹھی بھر اناج یا میٹھی چیزوں کے لیے خوش آمدید کہتی پھریں, بلکہ وہ عظیم تہذیبوں کے مالک اور اعلیٰ اقدار کے حامل تھے, جنہیں یورپی استعمار نے اپنے اسلحہ کے زور پر اپنی غلامی پر مجبور کیا- انھیں میں سے ایک مملکت "ماندنجو " ہے جس کے قائد_امام_ساموری_توری تھے ۔ یہ امام مجاہد ساموری توری افریقی مسلمانوں کے زعماء میں سے ایک ہیں, جنھوں نے مغربی افریقہ میں استعمار کی آمد سے قبل اور بعد میں اہم کردار ادا . .