ابو القاسم خوئی
From Wikipedia, the free encyclopedia
سید ابو القاسم موسوی خوئی (ولادت 29 نومبر 1899ء، مقام ولادت: ایران، شہر خوی – وفات: 8 اگست 1992ء، مقام وفات: نجف اشرف، اپنے زمانے کے نمایاں ترین شیعہ فقہا اور مراجع تقلید میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے نجف اشرف کے بڑے اساتذہ سے فیض حاصل کیا اور خود بھی نمایاں شاگردوں کی تربیت کی اور ان کے بعد کی نسل کے بہت سے مراجع تقلید ان کے شاگرد ہیں۔ آپ حوزہ علمیہ نجف اشرف کے زعیم بھی تھے۔ آیت اللہ سید علی السیتانی آپ کے معروف شاگرد اور جانشین بھی ہے۔
ابو القاسم خوئی | |
---|---|
(عربی میں: أبو القاسم الخوئي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 19 نومبر 1899ء [1] خوی |
وفات | 8 اگست 1992ء (93 سال)[1][2][3] کوفہ |
شہریت | دولت علیہ ایران (1899–1925) عراق |
مذہب | اسلام [4]، شیعہ اثنا عشریہ [4] |
عملی زندگی | |
مادر علمی | حوزہ علمیہ نجف |
نمایاں شاگرد | آیت اللہ سیستانی |
پیشہ | الٰہیات دان ، فقیہ ، مفسر قرآن ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
کارہائے نمایاں | البیان فی تفسیر القرآن |
تحریک | اصولی (اہل تشیع) [4] |
درستی - ترمیم |
وہ حوزات علمیہ میں رائج بہت سے اسلامی علوم میں معدودے چند بے مثل اساتذہ میں شمار ہوتے تھے اور ان کی فقہی، اصولی، رجالی اور تفسیری آراء حوزات علمیہ کی مقبول ترین آراء سمجھی جاتی ہیں۔ حوزہ میں کوئی بھی تدریسی مسند ان کی آراء سے بے اعتناء نہیں ہو سکتی۔
علوم اسلامی کے بہت سے موضوعات میں انھوں نے گرانقدر آثار تخلیق کیے ہیں جن میں البیان فی تفسیر القرآن اور معجم رجال الحدیث بہت زیادہ نمایاں اور مشہور ہیں۔ دنیا بھر کے کروڑوں شیعہ عرصۂ دراز تک ان کی تقلید کرتے رہے ہیں اور انھوں نے دنیا بھر میں اسلام کی ترویج کی طرف اپنی خاص توجہ کی بنا پر بہت سے ممالک میں بہت سے علمی و تربیتی مراکز یادگار کے طور پر چھوڑے ہیں۔