قرون وسطیٰ کی مسلم دنیا میں علم فلکیات
From Wikipedia, the free encyclopedia
قرون وسطی میں مسلمانوں کے اقتدار پھیلنے کے ساتھ ساتھ یہ مذہب کے حکام اور رعایا اچھے سیکھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ثابت ہوئے۔ مسلم حکام نے مفتوحہ علاقوں کی ترقی یافتہ تہذیب کے مقابلے میں اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے مقامی اداروں، خیالات، نظریات اور ثقافت کو اسلامی سانچے میں ڈھال لیا۔ انھوں نے اپنے زیادہ ترقی یافتہ مفتوحین سے سیکھنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کی۔ عظیم لائبریریاں اور دار التراجم قائم ہوئے۔ سائنس، طب اور فلسفہ کی بڑی بڑی کتابوں کو مشرق و مغرب سے اکٹھا کر کے ان کے ترجمے کیے گئے۔ یونانی، لاطینی، فارسی، شامی اور سنسکرت زبانوں سے ترجمہ کرنے کا کام عام طور پر یہودی اور مسیحی مفتوحین نے سر انجام دیا۔ اس طرح ادب، سائنس اور طب کی دنیا بھر کی بہترین کتابیں عوام الناس کے لیے میسر ہو گئیں۔ ترجمے کے دور کے بعد تخلیقی کام کا دور شروع ہوا۔[1]
قرونِ وسطیٰ یعنی 500ء سے 1500ء تک کے زمانہ میں دنیا کے دو تہائی حصہ پر مسلم حکومت قائم تھی۔ مسلمانوں نے علوم دُنیوی کا کوئی شعبہ بغیر تحقیق کے نہیں چھوڑا، حتیٰ کہ اپنی دسترس میں لے کر اُسے مزید نئے حقائق کی بنیاد پر روشناس کروایا۔ قرونِ وسطیٰ کی اسلامی دنیا میں سائنسی مضامین میں سب سے زیادہ اہمیت اور توجہ علم ہیئت کو دی گئی کیونکہ اِس علم کے ذریعہ سے مسلمان کسی بھی مقام سے سمتِ قبلہ معلوم کرسکتے تھے۔
اوقات صلوٰۃ، مذہبی تہواروں جیسے کہ نئے چاند کے طلوع اور رؤیتِ ہلال اور ماہِ صیام کے تعین کے لیے خاص رؤیتِ ہلال کا تعین اور حج جیسے عظیم فریضہ کی ادائیگی کے لیے ایام کا تعین کرنا بھی ضروری تھا۔
علم فلکیات میں مسلمانوں نے اصطرلاب کے علاوہ تمام اسلامی ممالک میں رصدگاہیں تعمیر کیں، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ باقاعدہ رصدگاہوں کا قیام خاص مسلمانوں کی ہی ایجاد ہے۔ انھوں نے آفتاب و ماہتاب کی روشنی، زمین کی حرکت، روشنی کی رفتار جیسے دقیق و پیچیدہ مسائل پر تحقیقات کیں۔ ماہ و سال کی مقداروں کی صحیح پیمائش دریافت کی۔ سورج اور چاند گرہن کے اسباب اور استخراج کے طریقے معلوم کیے۔ اندلس کے فاضل ہیئت دان اور ماہر آلات ابو اسحاق ابراہیم الزرقالی (1029ء – 1087ء) نے پہلی بار یہ دعویٰ کیا تھا کہ ستاروں کے مدار بیضوی ہوتے ہیں نہ کہ گول، کیونکہ وہ سفر کرتے ہوئے انڈے کی شکل نما دائروں میں سورج کے گرد گردش کرتے ہیں۔ گیارہویں صدی عیسوی میں پیش کیا جانے والا یہ نظریہ جس کی تصدیق کئی صدیوں بعد نیکولس کوپرنیکس نے کی۔ یہ بات یاد دہانی کے قابل ہے کہ دسویں صدی عیسوی کے مایہ نار مشہور ماہر فلکیات و مؤرخ ابوریحان البیرونی (973ء- 1048ء) نے یقین کامل سے کہا تھا کہ زمین اپنے مدار پر گھومتی ہے۔ اندلس کے ماہر فلکیات ابن رشد نے اپنے قیامِ مراکش کے دوران سورج کی سطح پر پائے جانے والے سیاہ دھبے دریافت کیے۔
خلافت عباسیہ کے زمانہ میں علم ہیئت و فلکیات اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ عباسی خلیفہ ابوجعفر المنصور (عہد حکومت: 10 جون 754ء- 6 اکتوبر775ء) نے جب بغداد کی بنیاد رکھنا چاہی تو ماہرین فلکیات اور منجمین سے مشورہ کیا گیا۔ اِس معاملہ میں نوبخت اہوازی بھی شامل تھا جو غالباً آٹھویں نویں صدی عیسوی میں زندہ تھا۔ نوبخت نے زائچہ کے مطابق بنیادِ بغداد کی تاریخ 30 جولائی 762ء منتخب کی تھی اور اِسی کے مشورہ پربغداد کا نقشہ بھی بنایا گیا تھا۔ نوبخت مذہباً زرتشتی تھا مگر اُس نے ابوجعفر المنصور کے عہد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید (813ء- 833ء) اپنے باپ ہارون الرشید (786ء- 809ء) سے بڑھ کر سائنسدانوں کا سرپرست تھا۔ مامون الرشید نے یونانی زبان کے علوم کی ترویج کی خاطر تمام کتب ہائے یونانی کو حاصل کیا اور اُن کتب کو عربی میں ترجمہ کروایا۔ یونانی کتب کو حاصل کرنے کے لیے بازنطینی قیصرِ روم لیو پنجم آرمینی (عہد حکومت: 22 جون 813ء تا 25 دسمبر 820ء) کے پاس سفارت کار بھیجے تھے۔ مامون کے حکم سے متعدد یونانی کتب کا عربی ترجمہ کیا گیا اور اِس کی ہدایت پر تدمر شہر میں ایک رصدگاہ تعمیر کی گئی۔ مامون نے ماہرین ہیئت کو زمین کے محیط کی پیمائش کرنے کے لیے 70 سے زائد ماہرین جغرافیہ و ہیئت دانوں کو مامور کیا۔ اِن ماہرین جغرافیہ و ہیئت کا صدر الفرغانی تھا، اِس تحقیق کے نتیجہ میں زمین کا محیط 25,009 میل نکلا جبکہ موجودہ پیمائش 24,858 میل ہے جبکہ قدیم پیمائش اور موجودہ جدید پیمائش کے مابین فرق صرف 151 میل ہے جسے آلات یا مقام کی غلطی سمجھا گیا ہے۔ مامون کے حکم پر دنیا کا ایک بڑا مفصل اورجامع نقشہ بھی تیار کیا گیا جو بڑی حد تک موجودہ دنیا کے خطہ سے مشابہ ہے۔ دسویں صدی ہجری کے آخر تک سینکڑوں علمائے فلکیات نے اِس موضوع پر ہزاروں کتب اور جداولات تیار کیں، اِن میں سے کم و بیش 100 کتب ایسی تھیں جنہیں فلکیات کی تاریخ میں قیمتی اضافہ و اساس سمجھا جاتا ہے۔ مغرب میں اِنہی کتب کی وجہ سے اہل مغرب روشناس ہوئے۔ ابتدائی مصنفین فلکیات میں الفرغانی (جو 861ء تک بقیدِ حیات تھا) کی کتاب ” المدخل الی علم الہیئیۃ الافلاک” ہے۔ منجم ابن عباس الجوہری نے مامون الرشید کے عہد خلافت میں بغداد (829ء/830ء) اور دمشق میں (832ء/833ء) میں کیے جانے والی فلکی مشاہدات میں شرکت کی تھی۔ اُس نے اقلیدس کی ہندسہ کی کتاب العناصر پر شروح لکھیں۔ حجاج ابن یوسف (متوفی 833ء) پہلا مسلمان مترجم تھا جس نے اُقلیدس کی کتاب العناصر اور بطلیموس کی المجسطی جیسی دقیقی کتب ہائے فلکیات کا یونانی سے عربی میں ترجمہ کیا۔ فارس کے مسلم ماہر فلکیات و جغرافیہ دان/ریاضی دان احمد بن عبد اللہ حبش الحاسب المروزی (پیدائش: 796ء/ وفات: 874ء) نے دس سال تک بغداد میں اجرام فلکی کے مشاہدات کے بعد تین مفصل زیجیں تیار کیں۔ 829ء میں جب سورج گرہن واقع ہوا تو اُس نے عین وقتِ گرہن سورج کی بلندی سے وقت کا تعین کیا۔ مزید یہ کہ اُس نے سایہ کے جداوالات تیار کیے۔
علی ابن عیسی اصطرلابی (متوفی 836ء) کے تو نام کا حصہ اصطرلاب کی وجہ سے تھا کیونکہ وہ اُصطرلاب بنانے کا ماہر تھا۔ اُس نے اُصطرلاب بنانے پر متعدد مقالہ جات لکھے۔ یحیی ابن ابی منصور (متوفی 831ء) نے بغداد میں فلکی مشاہدات کیے اور کئی کتب ہائے فلکیات لکھیں، اُس نے زیج ممتحن بھی تیار کی۔ یحییٰ ابن ابی منصور کا پوتا ہارون ابن علی (متوفی 901ء) بھی آلاتِ رصد بنانے کا ماہر تھا۔