ڈیرہ غازی خان
From Wikipedia, the free encyclopedia
ڈیرہ غازی خان کی دھرتی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی ہے، پندرہویں (15) صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مستقر بنایا۔ ایک ممتاز بلوچ سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی۔ 1887ء میں ڈیرہ غازی خان دریائے سندھ کے کٹاوُ کی لپیٹ میں آگیا۔ اس وقت یہ شہر موجودہ مقام سے 15 کلومیٹر مشرق میں واقع تھا۔ ڈیرہ کا لفظ فارسی سے نکلا ہے جس کے معنی رہائش گاہ ہے۔ تاہم بلوچ ثقافت میں ڈیرہ کو قیام گاہ کے ساتھ ساتھ مہمان خانہ یعنی وساخ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
شہر | |
عرفیت: ڈیرہ | |
نعرہ: Dera phullain da sehra دیرا پھلیں دا سہرا (ترجمہ: Dera–the garland of flowers) | |
ملک | پاکستان |
علاقہ | پنجاب |
ضلع | ڈیرہ غازی خان |
قدیم شہر کی بنیاد | 1474 |
نئے شہر کی بنیاد | 1910 |
آبادی | |
• شہری | 2,512,650 |
منطقۂ وقت | PST (UTC+5) |
• گرما (گرمائی وقت) | +6 (UTC) |
ڈاک رمز | 32200 |
رموز رقبہ | 064[1] |
مخفف | DGK |
محل وقوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے وسط میں واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے، شمال میں تھل اور مشرق میں دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، طبقات الارض کے حوالے سے یہ خطہ پہاڑی، دامانی، میدانی اور دریائی علاقوں پر مشتمل ہے، آب و ہوا کے لحاظ سے سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم مربوط خطہ ہے۔
علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جبکہ ارد گرد کے کچھ علاقوں میں بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے کوہ سلیمان کے یہ سب قبائل نمڑدی، بزدار، دریشک، کھیتران لغاری، لنڈ، گورچانی، کھوسہ چغتائی خان ، میرانی، جلبانی، مزاری، علیانی ، گرمانی، رند، جروار اور قیصرانی ، شہانی، سکھانی یہاں کے تمندار ہیں، بلوچ قبیلوں کی یہ تقسیم انگریز حکمرانوں نے کی، انھوں نے قبائلی سرداروں کو اختیارات دیے۔ عدلیہ کا کام جرگے نے سنبھالا جس کی نشتیں ڈیرہ غازی خان کے صحت افزاء مقام فورٹ منرو کے مقام پر ہوتی ہیں جو سطح سمندر سے 6470 فٹ بلند ہے۔ انتظامیہ کے لیے بارڈر ملٹری پولیس بنائی گئی ہے جو انہی قبائلی سرداروں کی منتخب کردہ ہوتی ہے۔ 1925ء میں نواب آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان میں ہونے والے معاہدے کے تحت ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع کو ریاست بہاولپور میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم 1982ء میں ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور وغیرہ کو بہاولپور سے علاحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں ضم کر دیا گیا۔ بعد میں اس شہر کو منفرد اور نقشے کے مطابق آباد کرنے کا منصوبہ تیار ہوا۔ شہر کی تمام سڑکوں، گلیوں اور بلاکون کو یکم جولائی 1900ء میں مختلف بلاکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس وقت کے منصوبے کے مطابق ہر گھر کے لیے پانچ مرلے کا رقبہ مختص تھا اور ہر بلاک 112 مرلے پر مشتمل تھا۔ تاہم وراثتی طور پر مکانات کی منتقلی سے گھروں کا حجم بہت فرق ہو گیا۔ 1982ء میں ﮈیرہ غازی خان ﮈویژن بنا۔ ڈیرہ غازی خان کی چار تحصیلیں ہیں۔ ڈیرہ غازی خان۔ تونسہ شریف۔ ٹرائیبل ایریا(تحصیل کوہ سلیمان) اور کوٹ چُھٹہ ڈیرہ غازی خان کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے ارد گرد کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں کے باعث ناقابل کاشت ہے، علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رُخ کرتی ہے، تونسہ کے علاقے سے گیس اور تیل نکلتا ہے، علاقے میں موجود یورینیم کے استعمال سے پاکستان آج ایٹمی طاقت بن چکا ہے، روڑہ بجری، خاکہ اور پتھر کے تاجر کروڑوں روپے کما رہے ہیں الغازی ٹریکٹر پلانٹ فیٹ ٹریکٹر اور ڈی جی سیمنٹ (DG Cement)اس علاقے کی پہچان ہے، اندرون ملک سفر کے ليے ریل، بسوں اور ویگنوں سے ملک کے چاروں صوبوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے چلتن ایکسپریس کوئٹہ سے لاہور، لاہور سے کوئٹہ کے ليے براستہ ڈیرہ غازی خان چلتی ہے، خوشحال خان خٹک ایکسپریس کراچی سے پشاور اور پشاور سے کراچی براستہ ڈیرہ چلتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان پاکستان کے چاروں صوبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں ھر صوبے کے لوگ رہتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں مرکز دعوت اسلامی ،مرکز تبلیغی دیوبند اور اهل حدیث کا دینی ادارہ طلبہ کے قرآن مجید اور حدیث و ترجمہ کے لیے مرکز التوحید چوک چورهٹہ ڈیرہ غازی خان ہے جس کی بنیاد 1956ء میں فضیلة الاستاد حاجی محمد موسی نے رکھی جس کی اب سرپرستی ڈاکٹر حافظ عبد الکریم صاحب وفاقی وزیر مواصلات وتعميرات کرتے هیں قاری عبد الرحیم کلیم اس ادارے کی دیکھ بھال کرتے هیں۔جب کے دیگر پرانی عمارتیں اور مندر بھی موجود ہیں۔