500 انتہائی بااثر مسلم شخصیات
بااثر مسلم شخصیات کی سالانہ اشاعت / From Wikipedia, the free encyclopedia
500 انتہائی بااثر مسلم شخصیات (انگریزی نام: The 500 Most Influential Muslims) (جسے دی مسلم 500 بھی کہا جاتا ہے) ایک سالانہ رسالہ ہے، جو پہلی بار 2009ء میں شائع ہوا تھا، جو ہر سال دنیا بھر کے مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے انتہائی بااثر مسلم شخصیات کی فہرست شائع کرتا ہے۔
اس مقالہ میں کچھ دیر کے لیے متحرک طور پر بڑی ترامیم کی جارہی ہیں۔ براہ مہربانی متنازع ترامیم سے بچنے کے لیے اس پیغام کے ہٹائے جانے تک صفحہ میں ترمیم کرنے سے گریز کریں۔ اگر پچھلے کئی گھنٹوں میں اس صفحے میں ترمیم نہیں کی گئی ہے تو براہ مہربانی یہ سانچہ نکال دیں۔ اگر آپ وہ مدیر ہیں جنھوں نے یہ سانچہ لگایا ہے تو براہ مہربانی اس بات کو یقینی بنائیں کہ ادارت میں لمبے وقفوں کے دوران اسے نکال دیں یا اس کی جگہ {{زیر تعمیر}} لگا دیں۔ |
2009ء کے ایڈیشن کا سرورق | |
مصنف | جون اسپوسیٹو، ابراہیم قالین، یسری غازی، مرکز امیر ولید بن طلال برائے مسلم عیسائی افہام و تفہیم، کینن اسٹوک مور |
---|---|
ملک | مملکت متحدہ |
زبان | انگریزی |
سلسلہ | پہلا ایڈیشن (2009) دوسرا ایڈیشن (2010) تیسرا ایڈیشن (2011) چوتھا ایڈیشن (2012) پانچواں ایڈیشن (2013/14) چھٹا ایڈیشن (2014/15) ساتواں ایڈیشن (2016) آٹھواں ایڈیشن(2017) نواں ایڈیشن(2018) دسواں ایڈیشن (2019) گیارھواں ایڈیشن(2020) |
موضوع | سوانحی لغت |
صنف | غیر افسانوی ادب |
ناشر | رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر |
تاریخ اشاعت | 16 جنوری 2009ء (2009ء-01-16) |
طرز طباعت | آن لائن، طباعت |
صفحات | 206 |
او سی ایل سی | 514462119 |
ویب سائٹ | https://www.themuslim500.com/ |
جسے عمان اردن میں واقع رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر نے مرتب کی ہے۔[1][2][3] یہ رپورٹ ریاست ہائے متحدہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں مرکز امیر ولید بن طلال برائے مفاہمت اسلام-عیسائیت کے تعاون سے ہر سال جاری کی جاتی ہے۔[2]
امیرِ قطر تمیم بن حمد آل ثانی نے 2022ء کے ایڈیشن میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ان کے بعد شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود، ایرانی عظیم رہنما علی خامنہ ای اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان تھے۔ شاہِ اردن عبد اللہ دوم، پاکستانی عالم محمد تقی عثمانی، شاہ محمد ششم مراکشی، اماراتی ولی عہد محمد بن زايد آل نہيان، عراقی عالم علی سیستانی اور عمران خان، وزیر اعظم پاکستان بھی ٹاپ 10 فہرست میں شامل ہیں۔[4]
ناقدین نے نوٹ کیا ہے کہ اس کی ٹاپ 50 فہرست سیاسی قیادت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے، جو مشرق وسطیٰ میں سیاسی نظام کی نوعیت کی وجہ سے علاقائی سیاست میں خاصی اثر و رسوخ حاصل کرتی ہے۔ اس طرح، سب سے اوپر 50 میں درج افراد کے اثر و رسوخ کو سیاسی میدان میں ان کے وجود کی حقیقت پر ترجیح دی جاتی ہے۔