ڈھاکہ
From Wikipedia, the free encyclopedia
ڈھاکہ ملک بنگلہ دیش کا دار الحکومت ہے۔[5] دریائے برہم پتر کے معاون دریا بوڑھی گنگا کے کنارے واقع اس شہر کی آبادی 90 لاکھ سے زيادہ ہے جس کی بدولت یہ بنگلہ دیش کا سب سے بڑا اور دنیا کے گنجان آباد ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر پٹ سن کی بہت بڑی منڈی اور صنعت و تجارت کا مرکز ہے۔ یہاں کی ململ دنیا بھر میں مشہور تھی لیکن برطانوی عہد حکومت میں اس عظیم شہر کی صنعت کو برباد کر دیا گیا۔[6][7][8] ڈھاکہ اپنی خوبصورت مساجد کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ یہ دنیا کا چھٹا سب سے بڑا اور ساتواں سب سے زیادہ گنجان آباد شہر ہے۔ مغل دور حکومت میں یہ شہر جہانگیر نگر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ برطانوی راج میں یہ کلکتہ کے بعد ریاست بنگال کا دوسرا بڑا شہر بن گیا۔1921ء میں یہاں ڈھاکہ یونیورسٹی قائم ہوئی۔[9][10]
ڈھاکہ | |
---|---|
تاریخ تاسیس | 1608 |
نقشہ | |
انتظامی تقسیم | |
ملک | عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش (26 مارچ 1971–)[1] پاکستان (12 مارچ 1956–26 مارچ 1971) مملکت پاکستان (14 اگست 1947–12 مارچ 1956) برطانوی ہند (28 جون 1858–14 اگست 1947) کمپنی راج (1793–28 جون 1858) [2][3] |
دار الحکومت برائے | |
تقسیم اعلیٰ | ڈھاکہ ڈویژن |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 23.70000°N 90.37500°E / 23.70000; 90.37500 |
رقبہ | |
بلندی | |
آبادی | |
کل آبادی | |
مزید معلومات | |
جڑواں شہر | |
اوقات | متناسق عالمی وقت+06:00 |
سرکاری زبان | بنگلہ |
رمزِ ڈاک | |
فون کوڈ | 02 |
قابل ذکر | |
باضابطہ ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
جیو رمز | 1185241 |
درستی - ترمیم |
تقسیم ہند کے بعد یہ مشرقی پاکستان کا انتظامی دار الحکومت قرار پایا جبکہ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد 1972ء میں اسے نو آموز مملکت بنگلہ دیش کا دار الحکومت قرار دیا گیا۔ شہر وسطی بنگلہ دیش میں دریائے بوڑھی گنگا کے مشرقی کناروں پر واقع ہے۔ شہر کا کل رقبہ 815.85 مربع کلومیٹر ہے اور یہ سات اہم تھانوں دھان منڈی، کوٹ والی، موتی جھیل، رمنا، محمد پور، سترا پور، تیج گاؤں اور 14 ثانوی تھانوں گلشن، لال باغ، میر پور، پلابی، سبوج باغ، ڈھاکا کنٹونمنٹ، ڈمرا، ہزاری باغ، شیام پور، بڈا، کفرل، کامرانگیر چار، کھل گاؤں اور اتارا پر مشتمل ہے۔ شہر میں کل 130 وارڈ اور 725 محلے ہیں۔ ضلع ڈھاکا کا کل رقبہ 1463.60 مربع کلومیٹر ہے اور جس کے گرد غازی پور، تن گیل، منشی گنج، راجبری، نارائن گنج اور مانک گنج کے اضلاع واقع ہے۔.[11][12][13] ڈھاکہ کی بندرگاہ دریائی اور سمندری تجارت دونوں کے لیے ایک اہم تجارتی چوکی تھی۔ مغلوں نے شہر کو اچھی طرح سے بچھائے گئے باغات ، مقبروں ، مساجد ، محلات اور قلعوں سے سجایا۔ اس شہر کو کبھی مشرق کا وینس کہا جاتا تھا۔ برطانوی حکمرانی کے تحت ، شہر نے بجلی ، ریلوے ، سینما ، مغربی طرز کی یونیورسٹیوں اور کالجوں اور جدید پانی کی فراہمی کو متعارف کرایا۔ یہ 1905 کے بعد مشرقی بنگال اور صوبہ آسام کا دار الحکومت ہونے کے ناطے برطانوی راج میں ایک اہم انتظامی اور تعلیمی مرکز بن گیا۔[14] [15][16][17]