عباس بن عبد المطلب
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سگے چچا / From Wikipedia, the free encyclopedia
عباس ابن عبد المطلب (پیدائش: 568ء— 15 فروری 653ء) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سگے چچا تھے۔خاتمُ المہاجرین حضرت سیّدنا ابو الفضل عباس بن عبدُالمطلب رضی اللہُ عنہما کی پیدائش واقعۂ فیل سے پہلے ہوئی ، آپ غزوۂ بدر سے پہلے ہی ایمان لاچکے تھے مگر مصلحتاً ایمان خفیہ رکھا ہوا تھا ، جنگِ بدر میں کفّار زبردستی آپ کو لائے چنانچہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اعلان کیا کہ کوئی عباس کو قتل نہ کرے کہ وہ مجبوراً لائے گئے ہیں ، اسی غزوے میں آپ قیدی ہوئے اور فدیہ دے کر چھوٹے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم بھی آپ کی عظمت و شان کے معترف تھے۔صحابۂ کرام آپ سے مشاورت کرتے اور آپ کی رائے لیا کرتے تھے۔آپ رضی اللہُ عنہ عطر اور کپڑے کے تاجر تھے ، حضرت عفیف کِندی رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اپنے اہل و عیال کے لیے مکّے کے کپڑے اور عطر لینا تھا تو میں مکّے کے تاجر حضرت عباس کے پاس آیا۔
عباس بن عبد المطلب | |
---|---|
(عربی میں: العباس بن عبد المطلب) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 568ء مکہ [1] |
وفات | 15 فروری 653ء (84–85 سال) مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع |
شہریت | خلافت راشدہ |
زوجہ | لبابہ بنت حارث |
اولاد | عبد اللہ بن عباس ، فضل ابن عباس ، عبید اللہ بن عباس ، تمام بن عباس ، معبد ابن عباس ، قثم بن عباس ، ام حبيب بنت عباس ، ام كلثوم بنت عباس ، کثیر بن عباس ، عبد الرحمن بن العباس |
تعداد اولاد | |
والد | عبد المطلب [2][3] |
والدہ | نتیلہ بنت جناب |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | تاجر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، فتح مکہ ، غزوہ حنین [2] |
درستی - ترمیم |
پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں وفدِ داریین آیا جنھوں نے آپ کو کئی تحائف دیے ،ان میں ایک ریشمی جبہ بھی تھا جو سونے سے آراستہ تھا ، حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ جبہ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کو دیا تو آپ نے عرض کی : میں اس کا کیا کروں گا! (کہ ریشم اور سونا تو مَردوں پر حرام ہے۔ ) حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اس سے سونا الگ کر کے اپنی خواتین کے لیے زیور بنالیں یا ویسے ہی اس سونے کو اپنے اہلِ خانہ پر خرچ کر لیں اور ریشمی جبہ فروخت کرکے اس کی قیمت کو استعمال میں لے لیں۔ چنانچہ وہ جبہ آپ نے ایک یہودی کو آٹھ ہزار درہم میں بیچ دیا۔
ناصرف آپ بلکہ آپ کے غلام بھی تجارت میں ماہر تھے ، خود بیان کرتے ہیں کہ 20 اوقیہ سونے کے بدلے (جو غزوہ بدر میں فدیہ ادا کیا تھا) اللہ پاک نے مجھے 20 غلام عطا کیے ، وہ سب کے سب تاجر تھے اور بہت سارا مال کما کر دیتے تھے ، ان میں سے جو غلام سب سے کم کما کر دیتا تھا اس کی مقدار بیس ہزار درہم تھی۔ آپ نے 70 غلام آزاد کیے اور اپنا گھر مسجدِ نبوی کی توسیع کے لیے وقف کر دیا۔ نیز آپ کے سخی ہونے کو تو خود حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیان فرمایا ہے چنانچہ ایک موقع پر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لشکر کی تیاری میں مصروف تھے کہ اتنے میں حضرت عباس بھی آگئے ، آپ نے حضرت عباس کو دیکھ کر ارشاد فرمایا : یہ تمھارے نبی کے چچا ہیں جو عرب میں سب سے بڑھ کر سخی اور صلہ رحمی (یعنی عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک) کرنے والے ہیں۔آپ کی وفات 88 سال کی عمر میں ہوئی ، نمازِ جنازہ امیرُ المؤمنین حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ نے پڑھائی اور تدفین جنّتُ البقیع میں ہوئی۔ [4][5][6] [7] [8][9][10]