کویت
From Wikipedia, the free encyclopedia
کویت، عربی: الكويت، سرکاری طور پر کویت کی ریاست (عربی: دولة الكويت)، مشرق وسطیٰ کا ایک عرب ملک ہے۔ دار الحکومت کویت شہر ہے۔ یہ مشرقی عرب کے شمالی کنارے میں خلیج فارس کے سرے پر واقع ہے، جس کی سرحد شمال میں عراق اور جنوب میں سعودی عرب سے ملتی ہے۔ کویت کی ایران کے ساتھ سمندری سرحدیں بھی ملتی ہیں۔ کویت کی ساحلی لمبائی تقریباً 500 کلومیٹر (311 میل) ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی دار الحکومت اور سب سے بڑے شہر کویت سٹی میں رہتی ہے۔ سنہ 2022ء تک، کویت کی آبادی پینتالیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے جن میں سے پندرہ لاکھ کویتی شہری ہیں جبکہ باقی تیس لاکھ غیر ملکی کارکن ہیں جو سو سے زائد ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کویت کا رقبہ 17,820 مربع کلومیٹر ہے۔
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
کویت | |
---|---|
پرچم | نشان |
ترانہ: کویت کا قومی ترانہ | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 29°10′00″N 47°36′00″E [1] |
بلند مقام | |
پست مقام | |
رقبہ | |
دارالحکومت | کویت شہر |
سرکاری زبان | عربی |
آبادی | |
حکمران | |
طرز حکمرانی | آئینی بادشاہت |
اعلی ترین منصب | مشال الاحمد الجابر الصباح (16 دسمبر 2023–) |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 26 فروری 1991 |
عمر کی حدبندیاں | |
شادی کی کم از کم عمر | |
شرح بے روزگاری | |
دیگر اعداد و شمار | |
کرنسی | کویتی دینار |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+03:00 |
ٹریفک سمت | دائیں [2] |
ڈومین نیم | kw. |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
آیزو 3166-1 الفا-2 | KW |
بین الاقوامی فون کوڈ | +965 |
درستی - ترمیم |
’کویت ‘ اس جزیرہ نما ملک کا تاریخی نام ہے۔ جو عربی لفظ’ کوت‘ سے آیا ہے۔ اور’ کوت‘ عربی زبان میں اس عمارت کو کہتے ہیں جہاں اسلحہ جمع کیا جاتا ہے۔’کوت‘ اس قلعہ کو بھی کہتے ہیں جو پانی کے کنارے تعمیر کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں ’کویت ‘ کا نام پہلی بار سکندراعظم کے زمانے میں استعمال میں آیا۔ اس نے جزیرة فیلکا کو بسایا اور اس کا نام ایکاروس رکھ دیا۔ سترہویں صدی اور اس سے پہلے یہ خطہ ’قرین‘ کے نام سے جانا جاتا تھا جس کے معنی ٹیلا، تودہ اور اونچی زمین کے آتے ہیں۔ جدید ’کویت ‘ کی تاریخ سترہویں صدی کے اواخر اور اٹھارہویں صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ بنو خالدکا قبیلہ سرزمین نجد سے تعلق رکھتا تھا۔ انھوں نے اس شہر کی داغ بیل ڈالی اورشہر کے اطراف قلعہ کی تعمیر کروائی۔ قلعہ کی دیواریں پہلی بار سنہ 1767ء میں پایہ تکمیل کو پہنچیں۔ آل صباح کا تعلق اسی قبیلے سے ہے۔ نجد سے نکل کر اس خاندان نے یہاں پر سکونت اختیار کی۔ اس عہد میں یہ شہر پھلا پھولا اور دنیا والوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ آل صباح کے خاندان نے اس کی تعمیر و ترقی میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ لوگوں نے ان کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سنہ 1752ء میں صباح بن جابر کے ہاتھوں پر بیعت کی اور ان کو اپنا حاکم تسلیم کیا۔ ایک تجارتی شہر پر ہر کسی کی نظر ہوتی ہے۔ قدیم زمانے ہی سے کویت ایک اہم تجارتی مرکز مانا جاتا تھا اور اس کی بندرگاہیں بین الاقوامی تجارت اور لین دین کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ اس لیے اس پر دشمنوں کے حملے کا اندیشہ ہمیشہ رہا ہے۔ جدید کویت کی تعمیر کے بعد اس پر عثمانی ترکوں کی نظر تھی۔ انیسویں صدی میں عثمانیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 23 جنوری 1899 میں شیخ مبارک نے برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کا مقصد عثمانیوں کے چنگل سے کویت کو نکالنا تھا۔ اس معاہدہ کی وجہ سے برطانیہ، کویت کے خارجی پالیسی پر مکمل طور پر حاوی ہو گیا۔ اس کے بعد سنہ 1913ء میں اینگلو عثمان سمجھوتے پر دستخط کے بعد حکومتِ برطانیہ اور عثمانی حکومت نے امیرِ کویت ’شیخ مبارک الصباح‘ کوخود مختار کویت سٹی کے حکمراں کے طور پر نامزد کیا۔ مگر پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے کے فورا ًبعد اس معاہدہ کو توڑتے ہوئے برطانیہ نے اعلان کیا کہ’کویت‘ سلطنت برطانیہ کے ماتحت ایک آزاد بادشاہی نظام والا ملک ہے“۔ ’شیخ مبارک الصباح‘کے دور میں کویت میں تعلیمی بیداری پیدا ہوئی۔ سن 1911 ء میں ’مدرسہ مبارکیہ‘ کے نام سے کویت کا سب سے پہلا تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا۔ یہ نسبت شیخ مبارک ہی کی طرف تھی۔ انھیں کی ایماء پر سنہ 1914ء میں’مستشفیٰ امریکی‘ کے نام سے ’کویت سٹی‘ میں ایک ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ کویت کی پہلی عمارت تھی جس میں سمینٹ اور لوہے کا استعمال ہوا۔ سنہ 1915ء میں جب شیخ مبارک رحلت فرما گئے تو ان کے بڑے بیٹے شیخ ’جابر المبارک الصباح‘ ان کے جانشین بن گئے۔ ان کی مدّت حکومت صرف دو سال تھی۔ ان کے بعد ان کے برادر شیخ ’سالم المبارک الصباح ‘ نے تاج و تخت سنبھالا۔ کویت کی تاریخ میں سب سے بڑا معرکہ’معرکة الجھرائ‘ انھیں کے زمانے میں پیش آیا۔ سعودی حکومت کے ساتھ حدود کا مسئلہ اس کا اہم سبب تھا۔ سنہ 1921ء میں شیخ احمد جابر الصباح حکومت کی کرسی پر براجمان ہوئے۔ آپ بڑے دلیر، حاضر دماغ اور دور اندیش لیڈر تھے۔ مشکل گھڑیوں میں بڑی آسانی سے اپنی قوم کو بچ نکلنے کا راستہ دکھا دینا ان کی خا صیت تھی۔ سنہ 1937ء میں شیخ احمد جابر الصباح کے عہد ہی میں کویت میں پہلی بار ’پٹرول ‘ دریافت ہوا اور 30 جون1946ء کو پہلی بار ’پٹرول‘ برآمد کیا گیا۔ سنہ 1948ء کوشیخ احمد جابر الصباح ہی کے دورِ حکومت میں ’احمدی‘ شہر کی بنیاد ڈالی گئی جو انھیں کے نام کی طرف نسبت رکھتا ہے۔سنہ 1950ء میں شیخ احمد جابر الصباح وفات پاگئے اور عبد اللہ السالم الصباح کویت کے امیر قرار دیے گئے۔ یہ وہ پہلے امیر تھے جنھوں نے کویت میں سیاسی زندگی کو نظم سے جوڑا اور یہاں پر سیاست کو ایک نیا رُخ دیا۔ انھوں نے اس کے لیے ایک دستور بھی وضع کیا جس کی وجہ سے انھیں ’ابو الدستور‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے عہد میں وسیع پیمانے پر تعمیراتی کام کا آغاز ہوا جس کی بنا پر قلعہ کی دیواریں منہدم کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا اور سنہ 1957ء میں قلعہ کے پانچ مرکزی دروازوں کو باقی رکھتے ہوئے باقی ساری دیواریں گرادی گئیں۔